(محمد فاران ارشد بھٹی، خان گڑھ)
فیصل آباد ہاسٹل میں میں104 بخار ہونے پر بے ہوش پڑا تھا۔ہوسٹل کے دوستوں بھائیوں نے پانی کی پٹیاں رکھیں ٹیکہ لگوایا تھوڑا سا بخار کم ہوالیکن ابھی جسم تندور بنا ہوا تھا اتنا تیز بخار ہونے کے باوجود بھی مجھے صبح والے پرچے کی فکر تھی صبح پرچہ ہے؟ میں کیا کروںگا؟ ایک پرچہ اگر نہ دے سکا تو میرے رزلٹ میں فرق پڑے گا۔ اُف خدا! کیا کروں؟ آدھی رات کو اٹھ کر دوائی کی خوراک لی ۔ صبح ہوگئی کچھ بخار اترا تو سہی لیکن ابھی بھی کافی تیز تھا۔ سر چکرا رہا تھا اور درد سے پھٹا جارہا تھا ۔ دوستوں نے خیریت پوچھی میں رونے والا ہورہا تھا۔ کچھ کھانے کو دل نہیں کررہا تھا لیکن زبردستی ایک دو بسکٹ اور چائے کا کپ پیا پھر گولیاں پھانکی ٹیکہ لگوایا۔ جسم ابھی بھی تپ رہا تھا یونیفارم پہنا اور کالج جانے کو تیار ہوگیا۔ امی جان کو موبائل پر اپنے بخار کا بتاتے ہوئے روپڑا ۔
امی جان نے تسلی سے میری بات سنی‘ وہ بھی کافی پریشان ہوگئیں‘ والدہ نے کہا کہ تم ہمت کرو‘ بس کلاس تک پہنچ جاؤں میں ابھی جائے نماز لیکر بیٹھتی ہوں‘ رب سے مانگتی ہوں‘ ان شاء اللہ تم بہترین طریقے سے پیپر دوگے‘ میری والدہ نے مجھے خوب تسلیاں دیں اور دعاؤں کے ساتھ فون بند کردیا۔
والدہ سے بات کرنے کے بعد بھی میں کراہ رہا تھا‘ مگر نجانے کیوں مجھ میں اتنی ہمت آگئی تھی کہ میں کسی طرح کلاس روم میں پہنچ گیا۔ وہاں بیٹھ کر بھی میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں‘ دماغ گھوم رہا تھا‘ مجھےسوالات کا پرچہ دے دیا گیا‘ مجھ سے سوالات بھی پڑھے نہ جارہے تھے‘ سر جھکائے پریشان بیٹھا تھا‘ نجانے کہاں سے ہمت آئی اور میں لکھنا شروع ہوگیا‘ لکھتا جارہا تھا‘ جلدی جلدی پیپر ختم گیا‘ نتھی کیا اور استاد محترم کو دے کر واپس ہاسٹل میں کسی طرح پہنچ گیا‘ پہنچتے ہی دوا کھائی‘ نیند آئی اور میںسو گیا‘ جب اٹھا تو کچھ سکون تھا‘ اب بخار بھی کچھ ہلکا ہوگیا تھا۔ دوستوں نے پوچھا پرچہ کیسا کرکے آئے ہو میں نے جواب دیا کچھ مت پوچھو مجھے نہیں پتہ کہ میں نے کیا لکھا ہے؟
بے خیالی میں کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہا ہوں۔ دوستوں نے کہا چل یار جھوٹ بولتا ہے وہاں تو شیٹ پر شیٹ لے رہا تھا اب کہتا ہے کچھ لکھا ہی نہیں۔ میں نے ماتھا پکڑتے ہوئے‘یار لکھا تو ہے لیکن کیا لکھا ہے کچھ پتہ نہیں۔جب رزلٹ آئے گا دیکھ لینا ہوسکتا ہے فیل ہی ہو جائوں۔
دوسرے دن بخار اتر گیا‘ کمزوری بدستور تھی۔کلاس میں گیا استاد نے سب کو نمبر بتائے میں حیرت میں گم ہوگیا بلکہ بے ہوش ہونے میں تھوڑی سے کسر رہ گئی جب مجھے پتہ چلا میرے 100 میں سے80 نمبر تھے‘ مجھے تو 33 کی بھی امید نہیں تھی یہ کیا ہوگیا سر نے غلط تو نہیں بتائے میں نے سر سے دوبارہ جاکر پوچھا وہ بولےنوجوان تم تو ہمیشہ ایسے نمبر لیتے آج کیوں حیران ہورہے ہو؟ میں خاموش رہا اب استاد جی کو کیا بتاتا‘ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور امی جان کو فون کرکے بتایا معجزہ ہوگیا ہے‘ ایسی خراب حالت میں دئیے گئےپرچے کے اتنے نمبر کیسے آگئے؟ اب امی جان نے جو کچھ بتایا وہ بڑا حیران کن تھا‘ انہوں نے کہا جیسے تم نے اپنی حالت بتائی میں نے اسی وقت دو رکعت نماز نفل حاجت پڑھ کر دعا کی اور سورئہ والضحیٰ کی آیت نمبر5 ’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی‘‘سارا دن پڑھتی رہیں‘ آٹا گوندھتے ہوئے‘ کھانا پکائے ہوئے غرض کہ سب کام کرتے ہوئے کھلا پڑھا‘ رات کو جب میں نے فون کیا ۔انہوں نے اسی وقت پڑھنا شروع کردیا‘ سارا دن پڑھتی رہی‘ خاص کر اس وقت جب انہیں پتا تھا کہ فاران میاں کمرہ امتحان میں پرچہ حل کررہے ہونگے اس دوران کمرہ بند کرکے پڑھتی رہیںیعنی ایک سیکنڈ کے بھی غافل نہیں ہوئی۔ واقعی سچ ہے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں